جمعرات 17 اپریل 2025 - 14:39
سب منجی عالم بشریت (عج) کے منتظر ہیں

حوزہ / نجات دہندہ کے آنے کا وعدہ تمام ادیان کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق، عالم بشریت کے نجات دہندہ اس وقت بھی لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ پہچانے گئے ہوں، یہاں تک کہ خداوند متعال انہیں ظہور کی اجازت دے۔ لہٰذا شیعہ عقیدہ کے مطابق، ظہور کا مطلب منجی کی معرفت اور ان کا پہچانا جانا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | شاید آپ نے بھی یہ سوال خود سے کیا ہو کہ وہ دنیا جو محبت و مہربانی سے بھری ہونی چاہیے، ظلم و ستم سے کیوں بھر چکی ہے؟ انسان کب تک اس ساری ناانصافی اور امتیاز کا مشاہدہ کرتا رہے گا؟

کیوں کچھ لوگ ظالموں کے ظلم کی وجہ سے انتہائی مظلومیت اور غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے؟ کیوں کچھ افراد کو صرف ان کے رنگ و پوست کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیوں ایسے بچوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کی ہڈیاں بھوک کی شدت سے نمایاں ہو چکی ہیں؟ کب تک ہم معصوم لوگوں کے گھروں کو جنگی طیاروں کی بمباری میں تباہ ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ کب تک ان والدین کو دیکھتے رہیں گے جو اپنے معصوم اور خون میں لت پت بچوں کو ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں؟

یہ ساری مشکلات کس شخصیت اور کس امید کی بنیاد پر حل ہوں گی؟ کون ہے جو ان سارے جرائم اور ناانصافیوں کے ذمہ داروں سے جواب طلب کرے گا؟ دنیا کی کس عدالت میں ان مظلوموں کو انصاف ملے گا؟ اور اس جیسے درجنوں سوالات، جو ہر آزاد انسان کے ذہن کو مشغول کرتے ہیں۔

تاہم دنیاوی مسائل کے علاوہ اور بھی سوالات ہیں جو ایک باشعور انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتے ہیں۔

یہ سوالات ایسے نہیں کہ ان سے آسانی سے گزر جایا جائے کیونکہ ہم انسان عقل سے مزین ہیں۔ وہ عقل جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ کتنا برا ہوگا اگر انسان کا سارا وجود شہوانی اور حیوانی لذتوں میں غرق ہو جائے اور اس کے وجود کی سلطنت تفکر و تعقل کے نور سے خالی رہ جائے۔ کیسا عجیب اور عظیم خسارہ ہوگا!

یہی سوالات اور باتیں، انسان کو تلاش پر آمادہ کر سکتی ہیں، تاکہ وہ کسی ایسی حقیقت یا کسی ایسے وجود کو تلاش کرے جو اس کے سوالات کا جواب اور اس کے دردوں کا مرہم بن سکے اور یہی وہ چیز ہے جسے "امید" کہا جاتا ہے؛ ہدایت کی امید، نجات کی امید، روشن مستقبل کی امید۔

یہ امید اور نجات ایک "منجی"، ایک "راہنما" کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا نجات دہندہ اور ہادی، جس کی آمد کی بشارت تمام ادیان میں دی گئی ہے۔

یہودی، عیسائی، مسلمان، زرتشتی، ہندو، بدھ مت کے پیروکار، اور یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو کسی مذہب کے پیروکار نہیں، سب کسی منجی کے آنے کو اپنے پختہ عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ایسا عقیدہ جو تنگدستی اور مصیبت کے وقت ان کے لیے سکون کا ذریعہ اور ان کے غموں اور دردوں کا مرہم ہوتا ہے۔

اسلام میں منجی کے آنے کی بشارت

اسلام اور خصوصاً مکتب تشیع میں اس منجی کے آنے کی بہت زیادہ گفتگو ملتی ہے۔ وہ جو آئے گا اور اس زمین کو جو ظلم و ستم سے بھر چکی ہے، عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ وہ جو دنیا کے مستضعفین کے لیے امید اور ظالموں اور ستمگروں کا دشمن ہوگا۔ وہ جس کے ظہور کے ذریعہ خدا اپنے بندوں پر اپنی مہربانی کو مکمل کرے گا؛ فرق صرف اتنا ہے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق، عالم بشریت کے منجی اس وقت لوگوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ پہچانے گئے ہوں، یہاں تک کہ خداوند متعال انہیں ظہور اور تعارف کی اجازت دے۔ لہٰذا شیعہ عقیدہ کے مطابق، ظہور کا مطلب منجی کا پہچانا جانا ہے۔

یہ گفتگو جاری ہے۔۔۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha